Karachi Alerts News - KAN
News and Updates

اور پھر، ویژن 2030 آ گیا، جس نے میری زندگی کو آسان بنا دیا ۔ ڈاکٹر سمیرہ عزیز

میں نے میڈیا میں دوسری خواتین کے لیے دروازے کھول دیے۔ اس وقت سعودی میڈیا میں خواتین موجود نہیں تھیں۔سمیرہ عزیز

0

اور پھر، ویژن 2030 آ گیا، جس نے میری زندگی کو آسان بنا دیا ۔ ڈاکٹر سمیرہ عزیز

تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر سمیرہ عزیز جو کہ ایک سعودی میڈیا اور بزنس وومن ہیں، نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ یہ قانون حال ہی میں متعارف کرایا گیا ہے۔ مجھے اپنی سعودی شہریت تقریباً 27 سال پہلے ملی تھی۔ اس وقت، سعودی شہریوں کی بیویوں کے علاوہ کسی اور کو سعودی شہریت شاذ و نادر ہی دی جاتی تھی، اور تب بھی، صرف اس صورت میں جب ان کے کم از کم 5 بچے ہوں اور ان کی شادی کو کم از کم 8 سال ہو چکے ہوں۔ جب مجھے سعودی شہریت دی گئی تو میری صرف ایک بیٹی تھی جس کی عمر 3 ماہ تھی۔ میں نے اپنا گریجویٹ امتحان اس وقت دیا جب میری بیٹی صرف 22 دن کی تھی۔ اب میرے دو بڑے بچے ہیں (ماشاءاللہ) ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔

لہذا، قومیت کے عمل کے دوران، میں اپنے گریجویشن کے نتائج کا انتظار کر رہی تھا۔ مجھے قومیت دینے کے عمل کا کل وقت لگ بھگ 8 ماہ لگا تھا۔ اس عمل کے دوران، انہوں نے میری جمع کرائی گئی دستاویزات اور دیگر مختلف حقائق کی چھان بین کی۔ الخبر، سعودی عرب میں پیدا ہونا، اور سعودی شہری سے شادی کرنا میرے اعلیٰ آئی کیو لیول کے علاوہ پلس پوائنٹس تھے۔ میرا آئی کیو سکور 139 تھا۔ اگر کسی کو میری آئی کیو رپورٹ کے مواد میں دلچسپی ہے تو براہ کرم مجھے بتائیں۔ ثقافتی اور زبان کے فرق کی وجہ سے میرے کچھ اسکورز متاثر ہوئے، لیکن مجھے سعودی وزارت میڈیا کے تحت میڈیا کی تربیت کے لیے منتخب کر لیا گیا اور سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ میں تعینات ہوئ، جس کی سربراہی مرحوم شہزادہ احمد بن سلمان کر رہے تھے، جو شاہ سلمان کے تیسرے بیٹے تھے-

میری پہلی تقرری سن 2000 میں اردو نیوز میں ہوئی تھی۔ میں نے سعودی انویسٹی گیٹو پولیس (مباحس) کی مدد کے لیے کئی اسٹنگ آپریشنز بھی کیے۔ میرے آئی کیو ٹیسٹ کے دوران، مجھے مختلف علمی مہارتوں کے لیے سراہا گیا، بشمول استدلال، مسئلہ حل کرنے، یادداشت، اور بات چیت کی اچھی صلاحیت ۔ مجھے بتایا گیا کہ میری مسئلہ حل کرنے اور تجزیاتی مہارتیں خاص طور پر مضبوط تھیں۔ عربی زبان میں میری کمزوری کے حوالے سے میرے جواب کو ایک شاندار جواب کے طور پر سراہا گیا۔ میں نے کہا تھا کہ سعودی عرب کو دنیا کے ساتھ غیر ملکی زبانوں میں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ میں اردو اور انگلش میں نمایاں حصہ ڈال سکتی ہوں۔ اگر سعودی میڈیا میں غیر ملکی زبانوں میں سعودی صحافیوں کی کمی رہی تو ایک وقت آ سکتا ہے جب تیل کی ضرورت نہیں رہے گی اور عالمی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مزید خراب ہو جائیں گے۔ سعودی عرب کے خلاف غلط فہمیاں گہری ہو سکتی ہیں، جس سے ہمارے لیے دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے سعودی میڈیا کو غیر ملکی زبانوں میں مہارت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ جس عنصر کو میری کمزوری سمجھا جاتا تھا، میں نے اسے اپنی طاقت بنا لیا۔

میں نے یہ بات ایسے وقت میں کہی تھی جب تیل کی مانگ تھی اور عالمی موسمیاتی تبدیلی محض ایک تصور تھی۔ آج، یہ ہو رہا ہے۔ میں یہ معلومات اس لیے شیئر کر رہی ہوں کیونکہ مجھے سعودی شہریت حاصل کرنے کے اپنے تجربے سے متعلق بہت سے ذاتی پیغامات موصول ہوئے ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ میرا یہ جواب بہت سے لوگوں کے لیے دلچسپ اور متاثر کن ہو سکتا ہے۔ کوئی چیز ناممکن نہیں- اگر آپ قابل ہیں، تو قوانین آپ کے لیے زیادہ موافق بن سکتے ہیں -آپ کی صلاحیتیں ‘قابل قدر’ ہونی چاہئیں۔

پھر، میں نے میڈیا میں دوسری خواتین کے لیے دروازے کھول دیے۔ اس وقت سعودی میڈیا میں خواتین موجود نہیں تھیں۔ میری ماسٹر ڈگری کراچی یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ہے، اور میں نے سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ کے تحت تحقیقاتی صحافت اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویٹ تعلیم بھی حاصل کی۔
اب میں ماس میڈیا میں پی ایچ ڈی کر چکی ہوں- جب میں نے اپنے سعودی شہری (جن کی والدہ کی طرف سے میں فرسٹ کزن ہوں ) سے شادی کی تو میں نے صرف ایک شرط رکھی: ‘اگر میں میڈیا میں اپنی تعلیم جاری رکھتی ہوں تو کیا آپ کو کوئی اعتراض ہوگا؟’ انہوں نے حامی بھری ، اور میں نے ان پر بھروسہ کیا۔ ان کی والدہ، میری سعودی قومیت کی حامل پھوپھی تھیں اور وہ میری پیدائش سے ہی مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔

تاہم، میں نہیں جانتی تھی کہ سعودی عرب میں خواتین کے لیے میڈیا کے مواقع موجود نہیں ہیں۔ میں اپنی شادی کے وقت کراچی میں ایک غریب بیوہ کی 16 سالہ معصوم بیٹی تھی۔ اس وقت، سوشل میڈیا موجود نہیں تھا، لہذا ‘معصوم’ کا صحیح معنوں میں مطلب معصوم ہونا ہی تھا۔ میں اپنے شوہر کی حیثیت سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتی تھی۔ میں اپنے گھر اور سعودی معاشرے کا حقیقی سہارا بن کر اپنی شناخت کمانا چاہتی تھی۔

یہ خواہش چیلنجنگ تھی اور اس سے بہت سی آزمائشوں سے مجھے گزرنا پڑا، لیکن میں پرعزم اور مضبوط تھی۔ میں نے نتیجہ خیز بننے کے لیے محنت کا راستہ چنا، حالانکہ میں آسانی سے پرتعیش زندگی کا انتخاب کر سکتی تھی جیسا کہ زیادہ تر لوگ کرتے ہیں۔ مجھے سعودی عرب سے پیار ہو گیا۔ لیکن پھر، مین اسٹریم میڈیا میں فیصلہ سازی کے عہدوں پر کام کرنے کے 14 سال بعد بھی، جب میں نے اپنے افق کو وسعت دینے اور مضبوط بصری میڈیا کے ذریعے سعودی عرب اور باقی دنیا کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کے لیے اپنی اہلیت کو بڑھانے کا فیصلہ کیا، میں مزید سیکھنا چاہتی تھی۔ فلم سازی کی تعلیم کے پاداش میں مَیں نے یہ افواہیں سنیں کہ ممبئی (بالی ووڈ) سے واپسی پر مجھے جیل ہو سکتی ہے کیونکہ ایک سعودی ہونے کے ناطے مجھے فلمساز نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت تک، میں چیلنجوں کی عادی ہو چکی تھی۔ زندگی نے پہلے ہی مجھے بہت آزمایا تھا اور مجھے پہلے سے زیادہ مضبوط بنا دیا تھا۔ میں نے وہاں اپنا ورک پرمٹ حاصل کیا اور بالی ووڈ کی پہلی سعودی فلمساز بن گئ۔

اور پھر، ویژن 2030 آ گیا، جس نے میری زندگی کو آسان بنا دیا…❤۔

جب کوئی ہمارے MBS کے بارے میں منفی بات کرتا ہے تو یہ ایک عورت کے طور ہر میرے لئے بہت تکلیف دہ بات ہوتی ہے۔ آئیےاور میری زندگی جئیں، اور حاصل کرنے کی ہمت کریں۔ جب لوگ ایم بی ایس کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بعض اوقات اتنے غیر معقول کیسے ہو سکتے ہیں؟ میں نے ایک صحرا میں دودھ کی نہر کھودی، اور اب میں بھنور کے خوف کے بغیر اپنے جہاز کو چلا رہی ہوں، جس کیلۓ شاہ سلمان اور شہزادہ محمد کی شکرگزار ہوں-
میں اپنی وجوہات جانتی ہوں، اور آپ میری کہانی نہیں جانتے!

Comments
Loading...